تفسير ابن كثير



سورۃ التوبة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَلَا يُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ[121]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور نہ وہ خرچ کرتے ہیں کوئی چھوٹا خرچ اور نہ کوئی بڑا اور نہ کوئی وادی طے کرتے ہیں، مگر وہ ان کے لیے لکھ لیا جاتا ہے، تاکہ اللہ انھیں اس عمل کی بہترین جزا دے جو وہ کیا کرتے تھے۔ [121]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور جو کچھ چھوٹا بڑا انہوں نے خرچ کیا اور جتنے میدان ان کو طے کرنے پڑے، یہ سب بھی ان کے نام لکھا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے کاموں کا اچھے سے اچھا بدلہ دے [121]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور (اسی طرح) جو وہ خرچ کرتے ہیں تھوڑا یا بہت یا کوئی میدان طے کرتے ہیں تو یہ سب کچھ ان کے لیے (اعمال صالحہ) میں لکھ لیا جاتا ہے تاکہ خدا ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دے [121]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 121،

مجاہدین کے اعمال کا بہترین بدلہ قربت الٰہی ہے ٭٭

یہ مجاہد جو کچھ تھوڑا بہت خرچ کریں اور راہ اللہ میں جس زمین پر چلیں پھریں، وہ سب ان کے لیے لکھ لیا جاتا ہے۔ یہ نکتہ یاد رہے کہ اوپر کا کام ذکر کر کے اجر کے بیان میں لفظ «بہ» لائے تھے اور یہاں نہیں لائے اس لیے کہ وہ غیر اختیار افعال تھے اور یہ خود ان سے صادر ہوتے ہیں۔

پس یہاں فرماتا ہے کہ انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ اللہ تعالیٰ دے گا۔ اس آیت کا بہت بڑا حصہ اور اس کا کامل اجر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سمیٹا ہے۔ غزوہ تبوک میں آپ رضی اللہ عنہ نے دل کھول کر خرچ کیا۔

چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں اس سختی کے لشکر کی امداد کا ذکر فرما کر اس کی رغبت دلائی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک سو اونٹ مع کجاوے، پالان، رسیوں وغیرہ کے میں دوں گا۔‏‏‏‏ آپ نے پھر اسی کو بیان فرمایا تو پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک سو اور بھی دوں گا۔‏‏‏‏ آپ ایک زینہ منبر کا اترے پھر رغبت دلائی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا: ایک سو اور بھی آپ نے خوشی خوشی اپنا ہاتھ ہلاتے ہوئے فرمایا: بس عثمان! آج کے بعد کوئی عمل نہ بھی کرے تو بھی یہی کافی ہے۔‏‏‏‏ [مسند احمد:75/4:ضعیف] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ ایک ہزار دینار کی تھیلی لا کر سیدنا عثمان نے آپ کے پلے میں ڈال دی۔ آپ انہیں اپنے ہاتھ سے الٹ پلٹ کرتے جاتے تھے اور فرما رہے تھے آج کے بعد یہ جو بھی عمل کریں انہیں نقصان نہ دے گا۔ باربار یہی فرماتے رہے۔ [مسند احمد:63/5:حسن] ‏‏‏‏

اس آیت کی تفسیر میں سیدنا قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس قدر انسان اپنے وطن سے اللہ کی راہ میں دور نکلتا ہے، اتنا ہی اللہ کے قرب میں بڑھتا ہے۔‏‏‏‏
3628



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.